دیگر پوسٹس

تازہ ترین

طورخم بارڈر پر دو اداروں کے مابین تصادم کیوں ہوا ؟متضاد دعوے

طورخم(جبران شینواری ) طورخم نادرا ٹرمینل میدان جنگ بن گیا...

“سیاست سے الیکشن تک” !!

"سدھیر احمد آفریدی" بس صرف اس بات پر اتفاق رائے...

علی گروپ مشتاق غنی کو کابینہ سے باہر رکھنے میں کامیاب ؟

اسٹاف رپورٹ سابق اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق غنی...

احسان اللہ کے فرار میں ملوث فوجی اہلکاروں‌کےخلاف کاروائی شروع

آزادی نیوز
راولپنڈی :پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے تصدیق کی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان فوجی تحویل سے فرار ہوئے تھے اور ان کے فرار میں چند فوجی اہلکار ملوث تھے جن کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
آپریشن ردالفساد کے چارسال مکمل،مستحکم ومعبتر پاکستان ابھر کرسامنے آیا ،آئی ایس پی آر
شمالی وزیرستان میں غیرسرکاری تنظیم سے وابستہ‌چارخواتین قتل

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ کارروائی سے متعلق پیش رفت جلد میڈیا کے ساتھ شیئر کی جائے گی۔
راولپنڈی میں بدھ کے روز غیر ملکی صحافیوں سے ملاقات میں پاکستان فوج کے ترجمان نے اہم امور پر بات چیت کی۔پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کو دوبار گرفتار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ گذشتہ برس اگست میں جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ احسان اللہ احسان کو ایک آپریشن میں استعمال کیا جا رہا تھا کہ اس دوران وہ فرار ہو گئے تھے۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ احسان اللہ احسان کا فرار ہو جانا ایک بہت سنگین معاملہ تھا، اس کو دوبارہ گرفتار کرنے کی کوششیں کی جاری ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ لاپتا افراد پر بننے والے کمیشن نے بہت پیشرفت کی ہے۔ کمیشن میں 6 ہزار سے زائد مقدمات میں سے 4 ہزار حل کیے جا چکے ہیں، یہ معاملہ بہت جلد حل ہو جائے گا۔
میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ بلوچستان میں 11 کان کنوں کے قتل سے متعلق چند افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، یہ بہت اہم گرفتاریاں ہیں۔ بھارت، پاکستان مخالف شدت پسندوں کی مدد کر رہا ہے، اس کا علم افغان انٹیلی جنس کو بھی ہے۔ بھارت ان تنظیموں کو اسلحہ اور نئی ٹیکنالوجی سے بھی نواز رہا ہے۔
واضح رہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے گذشتہ برس فروری میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان فوجی تحویل سے فرار ہو کر بیرون ملک جانے میں کامیاب ہو گئے ہیں
گذشتہ دنوں احسان اللہ احسان کے نام سے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ملالہ یوسف زئی کے خلاف دھمکی آمیز ٹویٹ کے بارے میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ وہ اکاؤنٹ احسان اللہ احسان کا اصلی اکاؤنٹ ہے اور اس باے میں ان کے پاس مزید کوئی معلومات نہیں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ انہیں علم نہیں احسان اللہ احسان اس وقت کہاں ہیں۔
خطے کی صورت حال اور پاکستان کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت کی پالیسی ہمسایوں کی جانب امن کا ہاتھ بڑھانا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے بھی حالیہ بیان میں ہمسایہ ممالک کی جانب امن کا ہاتھ بڑھانے کی بات کی تھی لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ پاکستان مشرقی سرحد پر درپیش خطرات سے آگاہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ’بھارت کی تمام فوجی نقل و حرکت پر ہماری نظر ہے اور پاکستان ان خطرات سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔‘
شمالی اور جنوبی وزیرستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان میں اب دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں لیکن چند عناصر موجود ہیں جو دوبارہ فعال ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں بیرونی ایجنسیوں کی جانب سے اسلحے اور مالی معاونت کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج ان دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔