دیگر پوسٹس

تازہ ترین

طورخم بارڈر پر دو اداروں کے مابین تصادم کیوں ہوا ؟متضاد دعوے

طورخم(جبران شینواری ) طورخم نادرا ٹرمینل میدان جنگ بن گیا...

“سیاست سے الیکشن تک” !!

"سدھیر احمد آفریدی" بس صرف اس بات پر اتفاق رائے...

علی گروپ مشتاق غنی کو کابینہ سے باہر رکھنے میں کامیاب ؟

اسٹاف رپورٹ سابق اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق غنی...

قرآن ہماری جان لیکن عمل سے دل پریشان

ہمارے ہاں قرآن کریم یا ایسے اوراق جن پر کلام اللہ تحریر ہو کا مکمل احترام کیا جاتا ہے ۔ جگہ جگہ ایسے باکس بنے دکھائی دیں گے جن پر لکھا ہوتا ہے کہ “مقدس اوراق اس میں ڈالیں ” کچھ عرصہ قبل ایک ریٹائرڈ ڈی پی او جناب غلام جیلانی ٹوانہ کے بارے میں ایک رپورٹ نظر سے گزری تھی کہ آپ رکشہ لے کر مقدس اوراق چنتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے خود کو مقدس اوراق کی حفاظت کے لیئے وقف کر رکھا ہے ۔


ایبٹ آباد جیل کا ایک واقعہ کئی سوال

ایبٹ آباد جیل میں قرآن پاک کی مبینہ بیحرمتی ،شہر میں‌شدید کشیدگی


یہی نہیں بلکہ ہر فرد آیات کریمہ کا احترام کرتا ہے لوگ گھروں میں قرآن شریف کو اس طرف نہیں رکھتے جدھر سوتے وقت پائوں ہوں ۔ قرآن مجید فرقان حمید کے احترام کا یہ عالم ہے کہ میں نے آج تک قرآن کریم کو زمین پر دھرا نہیں دیکھا ۔ کوئی جائے نماز پر بیٹھا قرآن کی تلاوت کر رہا ہو تو باقی لوگ اس سے اونچا نہیں بیٹھتے کہ مبادا کلام اللہ کی توہین نہ ہو جائے ۔ یہ تو ہے ہمارا وہ عمومی رویہ جو آئے روز ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ مگر بد قسمتی دیکھیئے کہ حرمت قرآن کے نام پر احتجاج کے دوران سڑکوں پر ہزاروں قرآن کے ماننے والے حرمت کے دعویداروں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے پھرتے ہیں ۔
کل کا دن ایبٹ آباد کی تاریخ کا ایک المناک دن تھا جب صبح سویرے ایک خبر آئی کہ جیل میں قید ایک شخص نے قرآن کریم کی توہین کر دی ہے ۔ اچانک ایک ہیجان برپا ہوگیا ۔ لوگ جیل جلانے نکل کھڑے ہوئے۔ پولیس نے فوری طور پر قیدی کو جیل سے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ۔ جس پر مظاہرین مزید مشتعل ہو گئے ۔ مظاہرین پر آنسو گیس فائر ہوئے۔ انتظامیہ نے شہر کے نامی گرامی علماء کرام ۔ مذہبی تنظیموں کے ذمہ داران تاجروں اور سیاسی و سماجی شخصیات کے ساتھ مذاکرات کیئے اور ان سرکردہ افراد کی جانب سے پیش کیئے جانیوالے تمام مطالبات تسلیم کر لیئے ۔ جونہی یہ خبر سامنے آئی کچھ ڈنڈا بردار جتھے چوکوں چوراہوں میں نکل آئے سڑکیں اور کاروبار بند کروا دیئے۔ یوں شہر نو گو ایریا بن کر رہ جاتا ہے ۔ املاک کو نقصان پہنچایا گیا ۔ گاڑیوں کی توڑ پھوڑ شروع ہو گئی ۔ راستے بند ہو گئے وہ تمام مسافر جنہوں نے قرآن کریم کو کبھی بے وضو ہاتھ بھی نہیں لگایا اور نہ کبھی اس طرف پائوں کیئے جدھر قرآن تھا وہ سبھی گاڑیوں میں صبح سے لیکر کل رات گئے تک پھنسے رہے ۔ آدھی رات کے بعد جا کر سڑکیں ٹریفک کے لیئے بحال ہو سکیں ۔

یہ تو تھا گزشتہ کل رونما ہونے والے افسوسناک واقعے کا نظری پہلو ۔ توہین قرآن کا دوسرا پہلو حقیقی ہے جو اس سے کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک ہے مگر ہم اس پر توجہ نہیں دیتے ۔ ایک مثال سے وضاحت کرتا ہوں ۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لیا کرو ۔
القرآن سورۃ الحجرات ۔ آیت نمبر 6
(بعض اردو تراجم میں عربی لفظ فاسق کے معنی —- نافرمان —- درج ہیں ۔ فاسق کبیرہ گناہ میں مبتلا ہونے والے کو کہتے ہیں )
یہاں یہ سوال بے محل نہ ہو گا کہ حرمت قرآن کے نعرے بلند کرنے والے ہجوم میں سے کتنوں نے اس خبر پر تحقیق کی؟
سب کے پاس وہی معلومات ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں سامنے آئیں ۔
جس شخص نے مبینہ طور پر بے حرمتی کی وہ خود طویل عرصے سے جیل کے اندر ایک چکی میں قید تھا ۔ وہاں بے حرمتی ہوئی تو باہر یہ خبر کیسے پہنچی؟ گواہ کون تھا؟ کس نے دیکھا کہ وہ توہین کر رہا ہے؟ ۔ اب تک کی معلومات کے مطابق عمران نامی ملزم پہلے بھی توہین مذہب کے کیس میں جیل میں بند تھا ۔ اس پر مقدمہ کیا تھا اور کب کا تھا یہ تمام معلومات بھی جلد سامنے آ جائیں گی ۔ لیکن آپ کو اور ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ خدانخواستہ کہیں جانے انجانے میں ہم غلط ہاتھوں میں استعمال تو نہیں ہو رہے؟
ہمارا اسلام اور مسلمانی دیکھنی ہو تو اس کے لیئے ایک یہی مثال کافی ہے کہ آج نماز ظہر کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہرین کی تعداد نمازیوں سے کم از کم دس گنا زیادہ تھی ۔
چونکہ یہ افسوسناک واقعہ جیل میں پیش آیا اور جیل کے بارے میں سعادت حسن منٹو کا ایک قول معروف ہے کہ جیل کی نماز میں اذان فراڈیا دیتا ہے، امامت قاتل کراتا ہے اور نمازی چور ہوتے ہیں۔
اس پر مستزاد کہ ہر شخص کے پاس کف اڑانے اور گردن زنی کے سوا کوئی حل موجود نہیں ۔ مار دو ۔ کاٹ دو ۔ جلا ڈالو۔ لٹکا دو۔ پھانسی دو جیسے نعرے زبان زد خاص و عام ہیں ۔ کسی کا نعرہ یہ نہیں تحقیق کرو۔ فساد نہ پھیلائو ۔ امن سے جینے دو۔ راہ گیروں پر راستے بند نہ کرو ۔ جھوٹ نہ بولو ۔ دوسروں کو نقصان نہ پہنچائو ۔ عدل و انصاف کا دامن نہ چھوڑو۔ ظالم اور ظلم کی حمایت نہ کرو ۔ حق اور صبر پر کاربند رہو ۔
حرمت قرآن کا حقیقی پہلو یہی ہے ۔ مگر نظری پہلو نے اسے وقتی شور شرابے کے پیچھے چھپا رکھا ہے
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گا

مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب


ابو انس عتیق الرحمان

ایبٹ آباد


۔