دیگر پوسٹس

تازہ ترین

طورخم بارڈر پر دو اداروں کے مابین تصادم کیوں ہوا ؟متضاد دعوے

طورخم(جبران شینواری ) طورخم نادرا ٹرمینل میدان جنگ بن گیا...

“سیاست سے الیکشن تک” !!

"سدھیر احمد آفریدی" بس صرف اس بات پر اتفاق رائے...

علی گروپ مشتاق غنی کو کابینہ سے باہر رکھنے میں کامیاب ؟

اسٹاف رپورٹ سابق اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق غنی...

ردیئنہ عبدالخالق جماعت: دہم-اسلامیہ انگلش سکول ابو ظبی’متحد عرب امارات

ردیئنہ عبدالخالق جماعت: دہم-اسلامیہ انگلش سکول ابو ظبی’متحد عرب امارات

پاکستان میں قومی زبان کے نفاذ کی اہمیت و ضرورت

سیکڑوں اور بھی دنیا میں زبانیں ہیں مگر
جس پہ مرتی ہے فصاحت وہ زباں ہے اردو
تحریر ہو یا تقریر زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔اردو زبان دیگر لغات کے الفاظ بڑی خوبصورتی سے خود میں ضم کر کے نئے الفاظ کو جنم دیتی ہے۔اردو زبان کندن کی طرح سخت مراحل سے گزر کرسونا بنی ہے۔جیسے دکنی سے ہندی پھر ہندوی سے ہندوستانی پھر ریختہ سے اردو معلى اور پھر اردو۔اردو زبان کی قومی و ملی اہمیت’افادیت اور ہم گیری کے پیش نظر ہی بابائے قوم علالت کے باوجود اردو زبان کی ترویج کے لیے ڈھاکہ گئے۔
اپنی زبان کو حقیر جان کر دوسری زبانوں میں رچ بس جانے سے ہمارے افکار اور رہن سہن میں تبدیلی آتی ہے۔ایسی ترقی کا کیا فائدہ کہ اپنی قومی زبان کا حق ادا نہ کریں اور وہ ناپید ہو کرصفحہ ہستی سے مٹ جائے۔
اردو زبان مالا کی وہ لڑی ہے جو سندھی، بلوچی ،پنجابی ،پختون اورکشمیری بھائیوں کو جوڑے ہوئے ہے۔اردو زبان پاکستان کی قوت گویائی، اخوت، بھائی چارے اور محبت و یگانگت کی ضمانت ہے۔ دوسری زبانوں میں علم تو حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن تحقیق کے دروازے اپنی قومی زبان میں ہی کھلتے ہیں ۔تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے اسی لئے پاکستان میں شرح خواندگی کے پیش نظر اردو زبان کا تعلیمی اداروں میں نفاذ ضروری ہے۔
اپنی زبان کو عالمی سطح پر اہمیت دینا ہی ہماری اصل ترقی ہے۔انگریزوں نے ماضی میں موجود سائنسی علوم اور اصطلاحات جو کہ اردو اور عربی زبان میں موجود تھیں تراجم کئے اور ان شعبوں میں ہم سے آگے نکل گئے۔آج کی نسل صرف یہ توجانتی ہے کہ اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن اسے بام عروج تک پہنچانے کے لیےجن شعرا ،دانشوروں اور نثر نگاروں نے دن رات ایک کی ان کے متعلق معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
جب تک پاکستان کے سرکاری، غیر سرکاری اور تعلیمی ادارے ، روزمرہ کے دستاویزات اور بول چالمیں اردو زبان کو نافذ نہیں کیا جائے گا ترقی کرنا ناممکن ہے۔اردو زبان کے نفاذ کے بغیر ہمارے معاشرے میں بے یقینی کی بکھری موجیں اضطراب اور بگاڑ کا شکار رہیں گی ۔پاکستان میں انگریزی زبان زورآور اور کمزور کے درمیان خط مستقیم بن گئی ہے۔کیونکہ انگریزی بولنے والے بااثر افراد کی سماجی حیثیت اردو بولنے والے سے کمتر تسلیم کی جاتی ہے۔‏‏ ‏ اردو کے نفاذ کے لیے آئین میں کافی دفعات اور نیشنل لینگویج اتھارٹی کے نام سے شعبہ بھی قائم ہے لیکن ضرورت ان کو حقیقت کا روپ دینے کی ہے۔حکمرانوں کی عالمی سطح پر انگریزی میں تقریریں، تعلیمی اداروں میں اردو زبان سے متعلق سرگرمیوں کا رواج نہ ہونا اور اپنی زبان کو حقیر جاننا ایک المیہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے” اور کوئی رسول نہیں بھیجا ہم نے مگر بولی بولنے والا اپنی قوم کی تاکہ ان کو سمجھائے”
کرہ ارض کی پانچ ہزار سالہ مرقومہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی کسی قوم نے کسی دوسری قوم کی زبان کے ذریعے ترقی نہیں کی۔ انگریزی زبان کا اندھا دھند استعمال ہمارے ملک کے نونہالوں کو پھلنے پھولنے سے روک رہا ہے۔انگریزوں نے ہمیں ایسا نظام تعلیم دیا ہے جس سے کلرک تو پیدا ہو سکتے ہیں لیکن عظیم رہنما نہیں اور حاملین اسناد تو بہت ہیں لیکن ماہرین فنکوئینہیں۔
ہمیں اپنے وطن عزیز میں فوری طور پر اردو کے نفاذ کا ایک جامع منصوبہ تیار کرنا چاہیے تاکہ قوم انگریزی کے تکلیف دہ جھنجھٹ سے نجات پا سکے۔انگریزوں سے آزادی حاصل کر کے بھی انگریزی زبان کی آج تک غلامی کر رہے ہیں۔ اگر انگریزی زبان ہی تعلیم کا معیار مقرر ہوتی تو امریکا میں ریڑھی بان بھی فرفر انگریزی بولتا ہے لیکن وہ ان پڑھگردانا جاتا ہے۔
آج کی تجارتی دنیا کا بادشاہ چین اپنی زبان ،تمدن و ثقافت کو لے کر دنیا پر چھایا ہوا ہے کیونکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر کسی قوم کی شناخت ختم کرنی ہو تو اس کی زبان کو سلب کر لو۔ٹیکنالوجی نےاردو کا یونیکوڈ سسٹم بنا کر اردو زبان کا استعمال آسان کردیا۔
میری اللہ سے بس اتنی دعا ہے راشد
میں جو اردو میں وصیت لکھوں بیٹا پڑھ لے