دیگر پوسٹس

تازہ ترین

طورخم بارڈر پر دو اداروں کے مابین تصادم کیوں ہوا ؟متضاد دعوے

طورخم(جبران شینواری ) طورخم نادرا ٹرمینل میدان جنگ بن گیا...

“سیاست سے الیکشن تک” !!

"سدھیر احمد آفریدی" بس صرف اس بات پر اتفاق رائے...

علی گروپ مشتاق غنی کو کابینہ سے باہر رکھنے میں کامیاب ؟

اسٹاف رپورٹ سابق اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق غنی...

اردو سے دوری ہزار سالہ تہذیبی و تمدنی ثقافت سے محرومی ہے ،ملائکہ طارق

ملائکہ طارق ، جامعۃ المحصنات ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، پنجاب

اردو زبان کی ضرورت و اہمیت:

“اردو،”ترکی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی لشکر کے ہیں قطع نظر اس کی تاریخ سے یہ واقعی ایک لشکری زبان ہے ہے جو ہر زبان کے لفظوں کو اپنے اندر ضم کر لیتی ہے انگریزی فارسی عربی کے بہت سے الفاظ اس نے اپنے اندرضم کرلیے ہیں اردو کوئی عام زبان نہیں بلکہ یہ ایک فصیح و بلیغ زبان ہے  بقول شاعر

؛”سیکڑوں اور بھی دنیا میں زبانیں ہیں

مگرجس پہ مرتی ہے فصاحت وہ زبان ہے اردو،”

دنیا میں نویں نمبر پر بولی جانے والییہ زبان بین الاقوامی مزاج رکھتی ہے اوراسلامی اقدار کے تحفظ اور فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے قومی تشخص کی علامت اور پاکستان کے تمام علاقوں میں رابطے کا واحد ذریعہ ہے

اردو زبان سے محرومی فقط اردو سے محرومی نہیں بلکہ تہذیب و ثقافت سے محرومی ہے اور یہ وطن عزیز تو بنا ہی ہماری تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لئے تھا ۔اسی لیےقائداعظم جیسے زیرک انسان نے اردو زبان کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہااگرپاکستان کے مختلف حصے متحد ہوکرترقیکیشاہراہپرگامزنہوناچاہتے ہیں تو انہیں ایک سرکاری زبان اپنانا ہوگی اور میرے نزدیک وہ زبان اردو اور صرف اردو ہے


یہ بھی پڑھیں


انگریزی زبان کے حامی حضرات جو اردو کو نافذ کرنے سے دور بھاگتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنی زبان سے محبت کرتی ہیں اس کی زندہ مثال روس جرمنی اور چین ہیں اگر ترقی کسی دوسری قوم کی زبان کے ساتھ خاص ہوتی تو یہ قومیں ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہوتی اسی طرح پاکستان کی ترقی بھی اردو زبان کے ساتھ مشروط ہےاگر اب بھی اس زبان کو نافذ نہ کیا تو جو آج کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا والا حال بنا ہوا ہے آئندہ اس سے بدتر حال ہوگا کیوں کہ کہ اردو زبان سے محرومی عام زبان سے محرومی نہیں بلکہ ایک فصیح و بلیغ زبان سے محرومی ہے اسلامی اقدار سے محرومی ہیں قومی تشخص سے محرومی ہے ہے قومی اتحاد سے محرومی ہے اپنی تہذیب و ثقافت سے محرومی ہے

اسی لیے شاعر نے کہا ہے

” اپنی مٹی پہ چلنے کا قرینہ سیکھو۔

سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے”

خطرہ
اگر ہم نے اس زبان پر اب بھی توجہ نہ کی تو یہ انمول زبان ان جس کے بدلے ہم نے مشرقی پاکستان سے جدائی گوارا کرلی وہ تو ہاتھ سے نکل ہی گیا ہے یہ بھی ہاتھ سے نکل جائے گی ہمارا قومی تشخص ایڑیاں گھسیٹ گھسیٹ کر دم توڑ جائے گا

پھر بروز قیامت قائد اعظم ہمارا پکڑ کر کر پوچھیں گے کہ تمہاری جس تہذیب کی خاطر میں نے جان جوکھوں میں ڈال لیں اس کا تم نے کیا حال کیا کیا اردو زبان کی صورت میں جو سرمایہ میں تمہیں دے گیا اس کا تحفظ کیوں نہ کیا آزاد ہونے کے بعد بھی غلامانہ روش کیوں اختیار کی اس لیے آج پاکستان میں اردو زبان کو نافذ کرنے کی کی اشد ضرورت ہے ہے  تاکہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر ہر گامزن ہو اور اور قائد اعظم کا خواب صحیح معنوں میں شرمندہ تعبیر ہو سکے اورہم سر اٹھا کے یہ کہہ سکے

بقول شاعر کے

“ہم ہیں تہذیب کے علمبردار

ہم کو اردو زباں آتی ہے”