دیگر پوسٹس

تازہ ترین

طورخم بارڈر پر دو اداروں کے مابین تصادم کیوں ہوا ؟متضاد دعوے

طورخم(جبران شینواری ) طورخم نادرا ٹرمینل میدان جنگ بن گیا...

“سیاست سے الیکشن تک” !!

"سدھیر احمد آفریدی" بس صرف اس بات پر اتفاق رائے...

علی گروپ مشتاق غنی کو کابینہ سے باہر رکھنے میں کامیاب ؟

اسٹاف رپورٹ سابق اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق غنی...

عوام اور قیادت کا امتحان اور قبائلی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات!

سدھیر احمد آفریدی


خدا خدا کر کے خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نے الیکشن کمیشن کی ہدایت اور سیاسی جماعتوں کے دباؤ پر پہلے مرحلے میں صوبے کے 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات 19 دسمبر کو کروانے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ باقی ماندہ اٹھارہ اضلاع میں الیکشن شیڈول بعد میں جاری کیا جائیگا

صوبہ خیبر پختون خواہ کے جن اضلاع میں ویلیج کونسل،نیبرہوڈ کونسل اور تحصیل کونسل کے انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے ان میں پہلے مرحلے میں نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں سے خیبر، مہمند اور باجوڑ کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں قبائلی عوام  خفیہ رائے دہی کے ذریعے اپنے بلدیاتی نمائندوں کا انتخاب کر سکیں گے

اس کی تفصیل اور طریقہ کار کچھ یوں ہونگے ہر کونسل میں جنرل سیٹ کی تعداد 3،خاتون1،نوجوان 1، کسان 1 اور اقلیتی نشست بھی1 ہوگی۔اس طرح ایک کونسل میں کل ممبران کی تعداد 7 ہوگی ویلج میں جو بھی پہلے نمبر پر آئے گا وہ ویلج ناظم یا چئیرمین کہلائیگا اور وہ تحصیل اسمبلی کا ممبر بھی ہوگا

 

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری فائل فوٹو

ایک ووٹر 6 ووٹ ڈال سکے گا۔ امیدوار کے انتخاب لڑنے کے لئے کوئی تعلیمی قابلیت کی شرط نہیں رکھی گئی ہے البتہ یوتھ کی سیٹ  پر الیکشن لڑنے کے لئے 21 سال سے 30 سال تک کی عمر اور باقی نشستوں کے لئے 21 سال سے اوپر کی عمر کی شرط رکھی گئی ہے

امیدوار صرف اسی کونسل سے انتخاب لڑ سکتا ہے جہاں پر اس کا ووٹ بطور ووٹر انتخابی فہرست میں درج ہوگا انتخابات کے لئے داخلہ متعلقہ ریٹرننگ آفیسر کے دفتر میں نامزدگی فارم جمع کرناہوگا۔اور ویلج/ نیبرہوڈ کونسل کے انتخابات کی نامزدگی فارم جمع کرنے کی فیس 5,000جبکہ تحصیل چیئرمین کی نشست کے انتخاب کی نامزدگی فارم جمع کرنے کی فیس 50,000 روپے ہوگی۔اور یہ فیس ناقابل واپسی  بھی ہوگی۔

تحصیل چیئرمین کی نشست کے لئے انتخابات براہ راست ووٹ کے ذریعے ہونگے یعنی پوری تحصیل کونسل میں جتنے ووٹرز رجسٹرڈ ہیں انہی سے MNA اور MPA کے طرز پر ووٹ لیا جائے گا۔


یہ بھی پڑھیں


ضلع کونسل کا نظام اس دفعہ ختم کیا گیا ہے اس لئے ضلع ممبر یا ضلع ناظم کوئی نہیں ہوگا یونین کونسل لیول پر اس بار انتخابات نہیں ہوگے اس بار صرف نیبر ہوڈ یا ویلج کونسل کے انتخابات ہونگے اور اوپر لیول پر تحصیل ہوگی۔البتہ ووٹر کی کوئی تعداد نہیں رکھی گئی ہے کیونکہ حلقہ بندی ووٹر نہیں بلکہ آبادی کے اعتبار سے کی جاتی ہے اور وہ ہر کونسل میں 5 سے 15 ہزار تک ہوگی۔

نیبر ہوڈ وہ کونسل ہوتی ہے جو شہری علاقوں میں ہو یا شہر کے قریب ہواور ویلج کونسل دیہی علاقوں میں ہوتی ہے یونین کونسل اس سے پہلے ہوتی تھی اور وہ ان دونوں سے بڑی ہوتی ہے جیسے 2015  کے انتخابات میں وارڈ کا نام دیا گیا تھا۔ موجودہ نظام میں یونین کونسل کا تصور ہی ختم کر دیا گیا ہے

اس تفصیل کے بعد عرض ہے اور سچی بات یہ ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں اور تحریک رد انضمام موجود نہ ہوتی تو شاید ہی حکومت قبائلی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کروادیتی رد انضمام تحریک کا یہ فائدہ ہو رہا ہے کہ ان کے دباؤ اور مخالفت کے بعد صوبائی حکومت نے قبائلی علاقوں کی طرف کچھ توجہ مبذول کی ہے

لیکن صوبائی حکومت جو اعلانات کرکے کریڈیٹ لیتی ہے یا پھر قبائلی اضلاع سے منتخب نمائندے ہر چھوٹے منصوبے کا کریڈیٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ وضاحت کرنی چاہئے کہ یہ تھوڑا بہت جو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوتا ہے یہ صوبائی حکومت اور منتخب نمائندے اپنے بجٹ سے کرتے ہیں یا پھر وہ سالانہ ایک سو دس ارب روپے ہیں جن کا اعلان انضمام کے وقت کیا گیا تھا اگر یہ ترقیاتی کام ایک سو دس ارب روپے سالانہ سے ہوتے ہیں تو پھر صوبائی حکومت، ایم پی ایز اور ایم این ایز کس بات کا کریڈیٹ لیتے ہیں؟

سیاسی جماعتیں ،کہیں خاموشی کہیں ہلچل

پھر ان کے اپنے بجٹ کدھر چلے گئے اور اگر یہ سب کچھ منتخب نمائندوں یا پھر صوبائی حکومت کے اپنے بجٹ سے کیا جاتا ہے تو پھر وہ سالانہ ایک سو دس ارب روپے کہاں گئے قبائلی عوام کےسامنے اس اہم ایشو کی وضاحت کرنی چاہئے تاکہ ابہام ختم ہو سکے

سربراہ پاکستان تحریک انصاف عمران خان

ترقی یافتہ اقوام نے اگر ترقی کی ہے تو انہوں نے بہترین معیار تعلیم کی فراہمی اور بلدیاتی نظام دینے پر کام کیا ہے ہمارے ملک میں المیہ یہ ہے کہ یہاں قانون ساز اداروں میں جو نمائندے پہنچ جاتے ہیں وہ اپنے اصل کام قانون سازی پر توجہ ہی نہیں دیتے ہیں بلکہ ان کی ساری توجہ اپنے کاروبار اور بزنس کو دوام دینے، اپنے تعلقات بنانے اور ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز اپنی مرضی سے اپنے حلقوں میں اپنے منظور نظر افراد کی خوشحالی پر خرچ کرنے کی فکر ہوتی ہے اور کمیشن اور کیک بیکس کے ذریعے مال کماتے ہیں

یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے کم از کم قبائلی علاقوں میں غربت جہالت اور پسماندگی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی  دوسرا بڑا المیہ پورے پاکستان میں اور بالخصوص قبائلی علاقوں میں یہ ہوتا ہے کہ منتخب نمائندے ہر ڈیپارٹمنٹ میں کھلے عام مداخلت کرتے ہیں اور کبھی انہوں نے متعلقہ مجاز حکام کو کام کرنے نہیں دیا اور جہاں بھی کوئی آسامی خالی نظر آتی ہے اس پر میرٹ سے ہٹ کر اپنے بندے تعینات کرنے کے لئے سیاسی دباؤ ڈالتے ہیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں

اس پس منظر میں اگر موثر بلدیاتی نظام قبائلی علاقوں میں رائج اور نافذ ہوا تو اس سے بہت سارے بت گریں گے ہمارے منتخب نمائندے شان و شوکت میں اضافے اور مال کمانے کے اتنے شوقین ہیں کہ اگر ان کو محسوس ہوا کہ قبائلی علاقوں میں یا پاکستان میں بلدیاتی نظام اصل روح کے ساتھ کامیابی کے ساتھ چل پڑا جس کی بہت بڑی ضرورت ہے تو یہ جو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات لڑنے والے سرمایہ دار ہیں یہ سارے چئیرمین کے بلدیاتی انتخابات میں کود پڑینگے

بلدیاتی نظام کا تسلسل مسائل کے حل کا بہترراستہ

لیکن سچی بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اگر جمہوریت اور انتخابات کا یہ سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ اور وقفے کے جاری و ساری رہا تو اس کے نتیخے میں عوام کے اندر کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے کی صلاحیت بڑھے گی بحر حال عوام کے پاس ایک موقع آیا ہے کہ وہ اپنی خدمت اور اپنے علاقوں کے بنیادی مسائل حل کروانے کے لئے ایسے دیانت دار، باصلاحیت اور پر عزم نمائندوں کا انتخاب کریں

تاکہ پھر ان کو پشیمانی نہ ہو اس بار بلدیاتی اداروں کے پاس بہت بڑے فنڈز ہونگے یعنی کہ ایک چھوٹی سی ویلیج کونسل کو بھی سالانہ ترقیاتی کاموں کے لئے کم از کم ایک کروڑ روپے ملیں گے جن کے ذریعے وہ گلیوں کی پختگی،سٹریٹ لائٹس اور آبنوشی کے کام کر سکیں گے

خیبر، مہمند اور باجوڑ میں تو مقامی سرمایہ داروں اور استحصالی طبقے کے لوگوں نے نئے واسکٹ خرید کر لوگوں کی غمی اور خوشی میں شرکت شروع کر دی ہے اور دھیمے اور غیر محسوس انداز میں بلدیاتی انتخابات کے لئے سرگرمیوں کا آغاز بھی کر دیا ہے

تاہم سیاسی جماعتوں نے ابھی کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی ہے البتہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کا خیر مقدم کیا گیا ہے اور اپنے اپنے پلیٹ فارمز سے الیکشن لڑنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ابھی تک صرف جماعت اسلامی نے پورے پختونخواہ اور قبائلی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات لڑنے کے حوالے سے موثر منصوبہ بندی کی ہے اور اس نئے نظام پر آگاہی پروگرامز بھی کر چکی ہے

تاہم جماعت اسلامی کی طرف سے بھی ابھی تک امیدواروں کو فائنل نہیں کیا گیا ہے جس پر ان کی مشاورت جاری یے جماعت اسلامی الخدمت گروپ کے نام سے الیکشن لڑیگی جبکہ عوامی نیشنل پارٹی وطن دوست گروپ اور پیپلز پارٹی عوام دوست گروپ کے ساتھ میدان میں موجود ہوں گی۔

تاہم ابھی تک اے این پی اور پیپلز پارٹی سمیت کسی سیاسی جماعت نے اپنے امیدواروں کو فائنل نہیں کیا ہے البتہ جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے اس لئے کہ مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم قائدین کو بلدیاتی انتخابات سے بائیکاٹ کا مشورہ دے چکے ہیں

ضلع خیبر تحصیل جمرود میں تحریک انصاف کے ذمہ داران کا اس حوالے سے اجلاس ہوا ہے جس میں انہوں نے انصاف پینلز یا گروپ کے نام سے الیکشن لڑنے کی حامی بھر لی ہے اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ چونکہ صوبے اور مرکز میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے اس لئے وہ عام انتخابات کی طرح بلدیاتی انتخابات میں بھی کلین سویپ کر لینگے

بلدیاتی انتخابات اور پاکستان تحریک انصاف کیلئے ممکنہ مسائل

لیکن ان کو معلوم نہیں کہ عوام عمران خان کی حکومت سے بیزار ہیں اور مہنگائی کی موجودہ بدترین لہر کو دیکھ کر کوئی بے وقوف ہی پی ٹی آئی کے امیدوار کو ووٹ دیگا بہر حال جمہوریت ہے ہر کسی کو الیکشن لڑنے کی آزادی ہے جو معیار پر پورے اترتے ہیں ابھی تک تو بات یہ ہو رہی ہے کہ ویلیج اور نیبرہوڈ کونسل کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہونگے جبکہ تحصیل چئیرمین یا ناظم کا انتخاب جماعتی بنیاد پر براہ راست ووٹ سے ہوسکتا ہے

آزادی اور جماعتی بنیادوں پر تو امیدوار الیکشن لڑینگے لیکن اصل امتحان عوام کا ہے کہ وہ چمک دمک، مال و دولت، بڑی گاڑیوں کی جھرمٹ، کھانوں اور چاول سے مزئین دسترخوانوں سے متاثر ہو کر آزمائے ہوئے چہروں کے کہنے اور مرضی پر ووٹ دیتے ہیں یا اپنے ضمیر کے مطابق اس شخص کو ووٹ دیکر کامیاب کرتے ہیں جو اس کا صحیح معنوں میں حقدار ہے

مہنگائی اور بدانتظامی بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی امیدواروں کیلئے مسائل پیدا کرسکتی ہے

ووٹ ایک امانت ہے اس کو امانت داروں اور اس کے اہل افراد کو دینا چاہئے اور آخر میں یہ مشورہ دونگا کہ اگر قبائلی عوام نے عام انتخابات کی طرح آزادانہ اور پرامن ماحول میں بلدیاتی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا تو یہ قابل فخر بات ہوگی الیکشن میں ہار جیت ہوتی ہے اس کو خوشگوار اور پرامن ماحول میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ضرورت ہے

بلدیاتی انتخابات کی مہم، حجروں، گلی، کوچوں اور محلوں کی سطح پر ہوگی اور الیکشن مہم چلانے والے سارے ایک ہی کمیونٹی کے رشتہ دار لوگ ہونگے لہذا اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ آپس میں تعلق اور رشتہ داری خراب نہ ہو اور اس کو دوستانہ ماحول میں ایک کھیل سمجھ کر حصہ لینا چاہئے

بلدیاتی الیکشن ایک رنگ روٹ، نرسری اور پہلی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر ہی کوئی شخص قومی لیول کا سیاستدان بن سکتا ہے اور جو یہاں کامیاب ہو کر ڈیلیور کرنے میں ناکام رہا وہ یہ ذہن سے نکال دے کہ کبھی قومی سطح پر نمودار ہوگا