آزادی نیوز
وفاقی کابینہ کے اراکین کےبیانات اور وزیر اعظم کے خطاب پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کا باضابطہ ردعمل بھی سامنے آگیا .گذشتہ روز وزیر اعظم کے قوم سے خطاب کے فورا بعد آج کمیشن کا اہم اجلاس بلانے کا فیصلہ کیاگیا تھا جس کے بعد ادارے کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی ہے جس میںوضاحت دیتے ہوئے کہا گیا الیکشن
کمیشن ایک آئینی اور آزاد ادارہ ہے اور اس کو ہی دیکھنا ہے کہ آئین اور قانون میںاس کی کیا اجازت ہے .اور وہی اس کا معیار ہے ،ہم کسی کی خوشنودی کی خاطر آئین اور قانون کو نظر انداز کرسکتے ہیں اور نہ ترمیم .اگر کسی کو الیکشن کمیشن کے فیصلوں یا احکامات پر اعتراضہے تو وہ آئینی راستہ اختیار کریں،ہمیںآزادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے،ادارہ کسی کے دبائو میںنہیںآئے گا .
جاری شدہ تحریری بیان میںمزید کہا گیا الیکشن کمیشن کو کسی بھی وفد نے ملنا چاہا کمیشن نے ان کا موقف سنا اور تجاویز کا تفصٰلی جائزہ لیا ،الیکشن کمیشن سب کی سنتا ہے مگر وہ صر ف اور صرف آئین و قانون کی روشنی میںملک میںجمہوریت کے فروغکیلئے فرائضسرانجام دیتا ہے .
حکومت کو پہلا بڑا دھچکا ،سینیٹ انتخابات میںیوسف رضاگیلانی فاتح
سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کے تحت ہونگے ،عدالت عظمیٰ
بیان میںوزیر اعظم عمران خان اور کابینہ اراکین کے بیانات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے مزید کہا گیا
یہ بات حیران کن ہے کہ ایک ہی روز ایک ہی مقام پر ایک ہی الیکٹرول عملہ کی موجودگی میںجو ہار گئے وہ نامنظور اور جو جیت گئے وہ منظور کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟؟جبکہ باقی تمام صوبوںکے نتائج قبول ،جس نتیجہ پر تبصرہ اور ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے الیکشن کمیشن اسے مسترد کرتا ہے ،یہی جمہوریت اور آزادانہ انتخابات اور خفیہ بیلٹ کا حسن ہے جو پوری قوم نے دیکھا اور یہی آئین کے مطابق ہے .بیان میں مزید لکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا کام قانون سازی نہیںبلکہ قانون کی پاسبانی ہے ،جن خیالات کا اظہار کیا گیا وہ پارلیمنٹ سے منظور کروانے میںکیا امر مانع ہے
اگر آئینی اداروںکی اسی طرح تضحیک کی جاتی رہی تو یہ ان کی کمزور ی کے مترادف ہے الیکشن کمیشن کی نہیں.ہر سیاسی جماعت اور شخص میںشکست تسلیم کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے اگر کہیںاختلاف ہے تو شواہد کے ساتھ آکربات کریں،اگر تجاویز سنی جا سکتی ہیںتو شکایات کیوںنہیں؟
ملکی اداروںپر کیچڑ نہ اچھالیں،الیکشن کمیشن قانون و آئین کی بالادستی کیلئے اپنی آئینی ذمہ داریاںپوری کرتا رہے گا
واضح رہے کہ جمعرات کی شام قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا اپوزیشن کا مقصد یہ تھا کہ سینیٹ انتخابات کے نتائج کو استعمال کرتے ہوئے اُن کی حکومت پر ’عدم اعتماد کی تلوار لٹکا دیں۔‘اُنھوں نے کہا کہ اپوزیشن اس سے ’مجھے بلیک میل کرنا چاہتی تھی تا کہ میں انھیں این آر او دوں۔‘اپنے خطاب میں انھوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے سیکریٹ بیلٹ کروا کر ’مجرموں کو بچا لیا ہے۔‘
یاد رہے کہ تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست پر حکومت کے امیدوار اور وزیرِ اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں شکست ہوئی۔بظاہر پاکستان تحریکِ انصاف کے اپنے کئی ارکانِ قومی اسمبلی نے حفیظ شیخ کو ووٹ دینے سے گریز کیا ہے جس پر حکمران جماعت میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے خطاب میںکہا کیا ؟
عمران خان نے کہا کہ سینیٹ الیکشن کو دیکھ کر معلوم ہو سکتا ہے کہ ملک کے مسئلے ادھر سے آتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ایک شخص رشوت دے کر سینیٹر بن رہا ہے اور ارکانِ اسمبلی اپنے ضمیر بیچ رہے ہیں، تو یہ کیسی جمہوریت ہے۔انھوں نے کہا کہ میثاقِ جمہوریت میں دونوں جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ اوپن بیلٹ ہونا چاہیے مگر جب پی ٹی آئی نے یہ بیڑا اٹھایا تو اس کا ساتھ نہیں دیا گیا۔انھوں نے براہِ راست الزام عائد کیا کہ سینیٹ کی اسلام آباد سیٹ پر یوسف رضا گیلانی کو جتوانے کے لیے پیسہ چلایا گیا۔عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کی پوری کوشش تھی کہ پیسے دے کر ہمارے لوگوں کو ساتھ لائیں۔’ان کو خوف ہے کہ عمران خان ہماری کرپشن پر آگے نہ بڑھے۔ یہ مجھے بلیک میل کرنا چاہتے تھے کہ مجھ پر عدم اعتماد کی تلوار لٹکا دیں۔‘
تاہم اپنے خطاب میںانہوںنے الیکشن کمیشن کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ادارے نے ملک کی جمہوریت اور اخلاقیات کو نقصان پہنچایا ہے۔
’جب آپ کو عدالت نے موقع دیا تھا تو آپ نے کیوں سیکریٹ بیلٹ کی حمایت کی؟
انھوں نے کہا کہ وہ آج پتا لگانا چاہتے ہیں کہ ہمارے کون لوگ بکے ہیں لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے بیلٹ پیپر ناقابلِ شناخت رکھنے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو سکتا۔