دیگر پوسٹس

تازہ ترین

طورخم بارڈر پر دو اداروں کے مابین تصادم کیوں ہوا ؟متضاد دعوے

طورخم(جبران شینواری ) طورخم نادرا ٹرمینل میدان جنگ بن گیا...

“سیاست سے الیکشن تک” !!

"سدھیر احمد آفریدی" بس صرف اس بات پر اتفاق رائے...

علی گروپ مشتاق غنی کو کابینہ سے باہر رکھنے میں کامیاب ؟

اسٹاف رپورٹ سابق اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق غنی...

اردو تمام پاکستانیوں کے مابین اتحاد کی علامت اور ذریعہ ہے

Malka Saba
ملکہ سبا

شیکسپئر کہتا ہے کہ بعض لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں اور بعض اپنے کارناموں اور جدوجہدکی وجہ سےعظمت حاصل کر لیتےہیں۔پاکستان کے قیام کے لیے دولت اور منصب کو پیروں تلے روند کرلندن سے انڈیا آنے والے اور ہمیں ایک قوم کی حیثیت دلانے والے شخص کا نام قائداعظم ہے۔

تحریک پاکستان اور حضرت قائداعظم کی زندگی کا مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی حصول وضوابط کا پیکر عظیم تھی۔ آپ کے کردار اور سیرت میں کمال پاکیزگی دیانت صداقت بھری تھی ۔ جبھی تو حضرت علامہ نے مسلم قیادت کے ہجوم میں سے صرف آپ کو آزادی و حریت کا پرچم بردار تسلیم کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمانان برصغیر کی نائو کو کنارے آپ کے سوا کوئی دوسرا نہیں لگا سکتا۔

حضرت قائداعظم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے برصغیر کے کونے کونے میں بکھرے مختلف نسل رنگ اور زبان رکھنے والے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرو کر ایک مضبوط اور باوقار قوم کی شکل میں ڈھال دیا۔ پھر ان کی ایسی لام بندی کی کہ ہندو انگریز گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے۔ آپ کی شخصیت کا طلسم تھا کہ لاہور میں مسلم لیگ کے جلسے میں حضرت قائد تقریر فرما رہے تھے اور قصور سے آئے ایک بزرگ غور سے سُن رہے تھے جب اس بابے سے پوچھا کہ قائداعظم کیا کہہ رہے ہیں تو وہ بزرگ برجستہ بولا معلوم نہیں کیا کہہ رہے ہیں مگر یقین ہے کہ حق اور سچ کہہ رہے ہیں۔ لوگوں نے جو کہا سو کہا حضرت قائداعظم ایک موقع پر اپنے یقین اور ایمان کے بارے میں خود ارشاد فرماتے ہیں ’’مسلمانوں میں نے دنیا کو بہت دیکھا، دولت، شہرت، عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے، اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔

آپ نے مملکت خداداد کے ہر اہم معاملے پر بڑا واضح مؤقف اختیار کیا جیسے پاکستان کو اسلامی جمہوری ریاست قرار دیا اسی طرح پاکستان کی قومی زبان کے بارے میں واشگاف الفاظ میں مسلم لیگ کی کونسل اور پھر پہلی قانون ساز اسمبلی کے فیصلوں کے مطابق اردو ہی کو قومی زبان بنانے پر زور دیا کیونکہ آپ نے تحریک آزادی کے دوران محسوس کر لیا تھا کہ مسلمانوں کو متحد کرنے میں اردو ہی ایک ذریعہ اور موثر ہتھیار ہے۔ آپ نے خود بھی اردو بولنے کی کوشش کی۔

حضرت قائد نے پہلی اردو تقریر بنگال میں کی جس کا ذکر خود انہوں نے مولوی عبدالحق سے کیا تھا۔ بابائے اردو لکھتے ہیں کہ کھانے کے بعد (قائد) مجھ سے فرمانے لگے آپ کو معلوم ہے سب سے پہلے میں نے اردو میں کب اور کہاں تقریر کی؟ میں نے نفی میں جواب دیا تو فرمایا کہ بنگال کے ایک مقام جہاں ایک انتخابی جلسہ تھا۔ جس قدر مجمع تھا اسکی توقع نہ تھی۔ میں نے سر عزیزالحق سے جو میرے ہمراہ تھے پوچھا کہ اس مجمع میں کتنے لوگ انگریزی سمجھتے ہونگے؟ انہوں نے کہا کہ کم و بیش پانچ سو، تب میں نے کہا اردو جاننے والے کتنے ہونگے؟ انہوں نے کہا تقریباً ڈیڑھ ہزار۔ اس کے بعد سر عزیزالحق نے کہا کہ آپ انگریزی میں تقریر فرمائیے گا اس کا ترجمہ بنگالی میں سُنا دوں گا لیکن میں نے ان کا مشورہ نہ مانا اور اردو میں تقریر کی۔ یہ میری پہلی اردو تقریر تھی۔ قائد نے ہنس کر فرمایا کہ میری اردو تانگے والے کی اردو ہے۔

اسی طرح مسلم لیگ کے ایک اجلاس دہلی میں ہورہا تھا۔ سر فیروز خان نون نے اپنی انگریزی تقریر شروع کی تو ہر طرف اردو اردو کے نعر ے لگے۔ انہوں نے مجبور ہو کر اردو میں کچھ جملے کہے پھر انگریزی میں بولنا شروع ہو گئے۔ دوبارہ اردو کے نعرے بلند ہوئے تب فیروز خان نون نے کہا کہ مسٹر جناح بھی تو انگریزی میں تقریر کرتے ہیں یہ سُن کر حضرت قائد اپنی کرسی سے اُٹھ کر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ فیروز خان نے میرے پیچھے پناہ لی ہے لہٰذا میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی زبان اردو ہو گی۔ اس پر پرجوش تالیاں بجیں۔ قیام پاکستان کے بعد جب مشرقی پاکستان میں بنگلہ کا شور اٹھا تو حضرت قائد بیماری کی حالت میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کیلئے پہنچے اور فرمایا

’’اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم مضبوط ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو اس کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ میری ذاتی رائے میں اردو ہے صرف اردو۔‘‘ 1973ء کے آئین میں اردو کو قومی زبان مانا مگر عمل نہ کر پائے۔ 68 سال بعد عدالت عظمیٰ قومی زبان کے نفاذ کا ایک بار پھر حکم صادر فرمایا مگر ہم آج بھی لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔ ہمارا ہر قدم اقبال اور قائد کے فرمودات سے متصادم ہے۔ اقبال اور قائداعظم حریت و آزادی کے علمبردار تھے ان کے فرمودات پر عمل سے گریز کرنا ہمیں آزادی کی ثمرات سے محروم رکھنے کے مترادف ہے۔ قومی زبا ن کے بغیر پاکستانی ایک الگ قوم نہیں بن سکتے۔

یہ بھی پڑھیں

قائداعظمؒ نے مختلف مواقع پر اردو زبان کی اہمیت، افادیت اور اس کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے ،جو ارشادات فرمائے اُن میں سے چند فرمودات بالترتیب ذیل میں درج ہیں۔
پہلا بیان( 1942ء):۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا پہلا بیان 1942ء ”پاکستان مسلم انڈیا“ دیباچے میں کچھ اس طرح سے تحریر کیا گیا ہے۔
”پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔“
دوسرا بیان (1946ء):۔
قائد اعظمؒ نے 10 اپریل 1946ء کو اپنے آل انڈیا مسلم لیگ اجلاس ،دہلی میں فرمایا :۔
”میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔“
تیسرا بیان (1948ء):۔
تیسرا بیان جسے سرکاری اعتبار سے فرمان کا درجہ حاصل ہے۔ جلسہ عام ڈھاکہ 21 مارچ 1948ء میں قائد اعظمؒ کا خطاب ہے جس میں انہوں نے فرمایا:۔

”میں آپ کو صاف صاف بتا دوں کہ جہاں تک آپ کی بنگالی زبان کا تعلق ہے۔ اس افواہ میں کوئی صداقت نہیں کہ آپ کی زندگی پر کوئی غلط یا پریشان کن اثر پڑنے والا ہے۔ اس صوبے کے لوگوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی۔ لیکن یہ میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو ، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہو گی۔“
چوتھا بیان (1948ء):۔

چوتھا بیان 24 مارچ 1948ء کا ہے اسے بھی سرکاری اعتبار سے فرمان کا درجہ حاصل ہے۔ جس میں قائد اعظم ؒ نے فرمایا:۔
”اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو ان کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ میری ذاتی رائے میں اردو اور صرف اردو ہے۔“
قائد اعظم محمد علی جناحؒ دور اندیش راہنما تھے۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں اردو زبان کی قومی اور سرکاری اہمیت اور حیثیت کو سمجھا اور اسے اس کا جائز مقام دینے، اس کی افادیت کو تسلیم کرنے کے احکامات جاری کیے۔ انہوں نے اردو زبان کے شاندار ماضی کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور مستقبل میں اس زبان کے فکری اور معنوی پھیلاؤ کو اپنی چشمِ تصور سے ملاحظہ کرتے ہوئے اسے پاکستان کی یگانگت ، اتحاد ، اور یکجہتی کی علامت قراد دیا۔

اردو کی تہذیبی اور فکری اہمیت:۔

وہ اردو کی تہذیبی اور فکری اہمیت سے آگاہ تھے۔ ان کے نزدیک اردو نہ صرف برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے مذہی، فکری، تہذیبی ، سیاسی ، سماجی اور معاشرتی رویوں کی آئینہ دار تھی اور ہے، بلکہ اس کا پھیلتا ہوا منظر نامہ مسلم امہ کی دوسری زبانوں کے ساتھ اس قدر فکری اور معنوی اشتراک رکھتا ہے کہ یہ مسلمانانِ برصغیر کو امت مسلمہ کے مجموعی دھارے کے ساتھ وابستہ رکھنے میں بھی کار گر ثابت ہو سکتی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد جب کچھ عناصر نے اردو کی بجائے بنگالی کو قومی زبان کے طور پر رائج کرنے کا نعرہ لگایا تو قائد اعظم ؒ نے نہایت سختی کے ساتھ اس رویے کی مخالفت کی۔ انہوں نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ پاکستان کی قومی ، سرکاری اور دفتری زبان اردو اور صرف اردو ہو گی اور یہی زبان پاکستانی عوام کی امنگوں کی ترجمان بھی ہے اور ان کے ثقافتی اور تہذیبی رویوں کی آئینہ دار بھی۔

صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ:۔

یہ زبان پاکستان کے تمام صوبوں کے درمیان رابطے کی زبان کا فریضہ بھی سر انجام دیتی ہےاور ملکی سالمیت اور وقار کے لئے اس کا وجود ناگزیر ہے۔ قائد اعظمؒ کے ارشادات کی روشنی میں اردو زبان کے سرکاری اور دفتری سطح پر نفاذ کے لئے عملی صورتیں موجود ہیں۔ قائد نے تحریک آزادی کے لئے بے پناہ جدو جہد کی اور انگریزوں اور ہندوؤں جیسی متعصب قوموں کےپنجے سے مسلمانوں کو آزاد کروایا۔
ان کی دو اندیشی اور مستقبل شناسی پر کسی کو کیا شک ہو سکتا ہے۔ اگر ہم تحریک پاکستان میں ان کی شخصیت اور فکر کےبنیادی رویے کے قائل اور قدردان ہیں تو اردو زبان کو سرکاری اور دفتری زبان ماننے اور ان حیثیتوں میں اسے رائج کرنے میں ہمیں کوئی تحمل نہیں ہونا چاہیے۔
سرکاری سطح پر ترویج اور اشاعت کا حکم:۔
قائد اعظمؒ کے ارشادات میں نہایت واضح طور پراردو زبان کے بارے میں پاکستان کی قومی اور سرکاری سطح پر ترویج اور اشاعت کا حکم موجود ہے۔

5/5
https://youtu.be/bUOb9Jl3Tl4